خالص پچیس سال کا خفیف عرصہ اور پاکستان کی پیدائش کے سو سال، یہ اس خواب کو لفظی جامہ پہنایا جارہا ہے جو دیکھا تو اقبال نے،پورا کیا ملت کے روشناس نے، اور اس کی ڈور ہے اب دست نوجوان میں چند ،شاموں کی سرخی ہی ماند پڑی ہے کہ اس سرزمین نے اپنےپچھتر برس مکمل کیے، کامیابیوں اور ناکامیوں کی تیز و سست رفتار موجوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برسوں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے خوب موج میلا ہوا،فضائیں نغموں کے پر اسرار راگ میں خود کو سمیٹتی رہیں ، ہر خاص و عام نے سبز و سفید لباس پہن کر اپنی نشاط کا اظہار کیا۔ پاکستانی جھنڈے کو ہر چھت پر عیاں کیا گیا گویا پورا ملک سبز و سفید رنگ اوڑھے ہوئے تھا۔آج سے عین 25 سال بعد 100 سالہ جشن پر جوش و خروش کا اپنا منفرد انداز ہوگا جو کہ کسی بھی قوم کے لیے نہایت فخر کی بات ہے۔
وطن عزیز کو حاصل کرنے میں جو قربانیوں کا گہوارہ ہے وہ کسی طور بھی خشک نہیں ہو سکتا۔ گویا ان آہوں،چیخ و پکار ، عزتوں کی پامالی،مال و زر کی قربانی، سسکیوں ،خون میں لت پت آنکھوں میں قوم ہند کے خوف کی روانی، سکھوں کے جبر وظلمت کی کہانی کو کسی کتاب کے صفحات میں قلم بند کرنا ایک غیر یقینی سی بات ہے۔
ہر برس یہ جشن ہوتا ہے اور 14 اگست کے سورج کے ساتھ ساتھ نوجوان کا جذبہ و ولولہ بھی جانب مغرب امید غروب
لیے جاتا ہے چونکہ ہر سحر کو شام ہے، ہر طلوع کو غروب ہے، ہر عروج کو زوال ہے، ہر بہار کو خزاں ہے ، ہر بے قراری کو قرار ہے ۔۔ہر خزاں کو آمد بہار ہےاسی طرح نوجوان نسل کو بھی اپنے وطن سے کچھ امنگیں ہیں – نظریہ وقت یہ ہے کہ سو سالہ جشن کے موقع پر کیاہم سبز جھنڈے کے پر سکون سائے تلے اپنا سر اٹھاکر،سینہ چست کر کے کھڑے ہونے کے قابل ہونگے؟ کیا میں ،میرے وطن کے باسی ،میری مٹی کے نوجوان اپنی نظروں کو جھکنے سے بچا لیں گے؟اور ہمت و فخر کا علم لیے یہ کہنے کے قابل ہونگے ؟کہ ہاں! میں بطور نوجوان اپنی زمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوا، میں نے اپنے پرچم کو کبھی غیروں کے سامنے جھکنے نہیں دیا،اپنے شہیدوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔۔۔
اس نظریے کی خشکی کی طرف مائل ہوتی فصل کو پانی و گوڈی اور شب غفلت کو سحر بیداری کی اشد حاجت
ہے۔بطور نوجوان، 2047 کے پاکستان سے نوجوان کو جو امنگیں ہیں ان کی فہرست کافی طویل ہے جنہیں لفظوں کی طلسمی پوشاک پہنانا اور شب غفلت سے جگانا نہایت اہم ہوچکا ہے۔کہیں یہ نہ ہو کہ پاکستان اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو بیٹھے-
نوجوان 2047 کے پاکستان سے امن و آشتی کی فضا،جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ،تعلیمی نظام میں شفافیت،خود مختار و جمہوری ریاست کےقیام ، مجرموں کی سزائیں ،انصاف کی جلد سے جلد فراہمی ، جلد سے جلد کیسوں کی سنوائی ، اور انصاف کی جیت ،کی امید رکھتا ہے۔ امیدوں کا ایندھن ابھی بجھا نہیں کہ بڑی قربانیوں کے بعد یہ زمین نصیب ہوئی ہے۔پاکستان کے نام نہاد وارثوں کو تب تک کمان اتار دینی چاہیے کہ بس اب بہت ہوا! یہ خاندانوں کے خاندانوں نے اب بہت لوٹ لیا! بہت ہوگیا یہ لوٹ مار ،جاہلیت ، ظلم و سرخی کا بازار گرم۔۔۔پس انہیں اب یہ رویہ ترک کر کے اس زمین کو اس کے اصل وارثوں یعنی کہ نوجوانوں کو سونپ دینا چاہیے تاکہ وہ آنے والی نسلوں کے مقروض نہ ہوں۔
الیکشن کے صاف و شفاف نظام کی متعارفی ،حقوق و فرائض کا بول بالا، عام آدمی کی پہچان نوجوان کی اولین ترجیحات ہیں -آج کے اور 25 برس بعد کے پاکستان میں اور نوجوان میں واضح تفریق ہونی چاہیے۔نوجوان کی ملک سے امیدوں کا تعلق کئ طبقات سے ہے ،اور اس تفریق پر عمل درآمد ہی نوجوان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔جن میں سے سر فہرست مذہبی مسائل ہیں ،جن کا خاتمہ وقت و حالات کی اہم ترین ضرورت ہے-
مذہب کے نام پر جنگ اور سیاست کے نظریے کو دفن ہو جانا چاہیے، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی ڈوری کو جڑ سے کٹ جانا چاہیے دہشت گردی کی ہوا کو زمین بوس ہو کر اپنی رہی سہی جڑیں اکھاڑ لینی چاہیے-پاکستان کی امیدوں کا کچھ گہوارہ مضبوط معیشت پر بھی ہے پاکستان کو نوجوان صف اول میں شامل کرنے کے خواہش مند ہیں – دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی سی صفات اپنانے کی ضرورت ہے
چین کی مثال سامنے ہے جس نے ہم سے ایک سال بعد آزادی حاصل کی لیکن آج وہ سوپر پاورز کی دوڑ میں شمولیت اختیار کر چکا ہے، قومیں وقت و صبر اور محنت کی محتاج ہوتی ہیں اور یہی وقت انہیں اپنا لوہا منوانے پر مجبور کر دیتی ہیں اور پھر چین جیسی قومیں منظر عام پر آتی ہیں ۔ ملائشیا ور اور ترکی کی مثال لے لیں ،انہوں نے اپنی عام عوام کو باہر پڑھنے اور مختلف فنون ہائے سیکھنے بھیجا پھر انہیں اپنے ہی ملک میں دو گنا تنخواہ پر واپس بلایا، پاکستان کی حکومت کو بھی ایسی اسٹریٹیجی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی ایک قوم بن سکیں -پچھتر سال ہمیں قوم نہ بنا سکے ۔2047 کے پاکستان میں نوجوانوں کا بہتر مستقبل و دلچسپی ضروری ہے تاکہ ہم ایک جیسے چہروں سے نجات پاسکیں ۔اس کے لیےان کی سیاست کی طرف رغبت ضروری امر ہے۔
پاکستان کی کامیابیوں کی داستان طویل ہے مگر ملک کے نوجوانوں کو ماضی کے دریچوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور بہت سے ایدھی و ملالہ ، اعتزاز و جناح ،جہانگیر و جان شیر،جنم دینے کی ضرورت ہے ان سب کے ساتھ ساتھ نوجوان کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر کچھ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔2047 کے خوشگوار و کامیاب پاکستان کے لیے نوجوان ہی ترقی کی پہلی سیڑھی ہیں جس کے لیے پہلے تو ان میں ایمانی صفات کاپیدا ہونا ، وطنِ عزیز کو حاصل کرنے کے مقصد کو جاننا اور پھر اس مقصد کے عین مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ،سیرت محمدی کو اپنانا ،اقبال و جناح کے خواب کو تعبیر دینا، وطن کی اساس کو سمجھنا اہم ہے۔
دور حاضر کے نوجوانوں کا کردار انتہائی مشکوک ہے کہ یہ اپنے اسلاف کی قربانیوں کو پس پشت ڈال چکے ہیں ،انہیں قرآن کا عملی جامہ پہن کر اسلام کے پرچم کو وطنِ عزیز کے پرچم کے شانی بشانہ بلند کرنا چاہیے اور اس کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے-
نوجوان نسل ایک برقی بیماری کی شکار نظر آتی ہے اور اس بیماری کی جڑیں اتنی تنی ہیں کہ انہوں نے اس کی زد میں آ کر تہذیب و تمدن کا لباس تار تار کر دیا۔ چاہے وہ نازک اداروں کے خلاف پروپیگنڈا ہو یا شہیدوں کا لہو ۔انہوں نے تنقید کی آگ گرم رکھی – اس بیماری نے انہیں صرف غیر نصابی سرگرمیوں سے کوسوں دور کیا بلکہ ان کی ذہن کو ایسے اپنی مٹھی میں کیا کہ کسی پیر مرشد کے پاس اس کا حل نہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال ایک غلط چیز نہیں اس کے بہت سے فائدے ہیں جن پر کام کر کے ملک کو درست سمت میں گامزن کیا جاسکتا ہے۔ڈیجیٹل پاکستان بظاہر کوئی قابلِ عاقبت شے نہیں ، اس کو غلط اس کا استعمال بناتا ہے۔
نوجوان سو سالہ پاکستان سے مزید بر آں ایک زبان کا فروغ مانگتا ہے ،مختلف زبانوں کے بندھن میں جکڑا ہوا انسان کسی ایک میں بھی مناسب طریقہ سے مہارت حاصل نہیں کر سکتا- یہ سر زمین اردو زبان کی بنیاد پر لی گئی تو اردو کو ہی فروغ دینا چاہیے ۔ وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو اپنی آبائی زبان کو اپنا فخر سمجھتی ہیں- لہذا سکولوں، کالجوں، مدرسوں دفتروں میں ایک زبان استعمال ہو-
کامیاب قومیں اپنی زبانوں کو کبھی نہیں بھولتی
نظام رٹہ اور نمبرز کی جنگ جس کے پیچھے بہت سے کم ہمت نوجوان زندگیاں تک کھو بیٹھتے ہیں، کا جڑ سے خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔12 سالہ تعلیم کے بعد کیریئر کاسوچنے سے بہتر ہے کہ نوجوانوں کو سکولوں اور کالجوں میں ہی ان کے مستقبل کے اختیار رائے کے بارے میں آگاہی دی جائے تاکہ وہ بعد کی دوسری سے بچ سکیں ۔ان کے شوق کو ترجیح دی جائے تاکہ وہ اپنے آپ سے مطمئن ہوں ، والدین کا شوق ان پر مسلط نہ کیا جائے،اور اس معاملے میں نہ صرف طلباء کو مشاورت کی ضرورت ہے، بلکہ والدین بھی اس کے ضرورت مند ہیں اس سے طلباء میں خود اعتمادی کی فضا ابھرے گی۔
کھیلوں کے مقابلوں کو غیر نصابی سرگرمی کی بجائے نصاب کے طور پر لیا جائے تاکہ ارشد ندیم و بابر اعظم جیسے کئی نام ملک میں پیدا ہوں جو قوم و ملت کے فخر کا باعث ہوں-مقابلے کی دوڑ کو پس پردہ رکھ کر خود کو زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی طرف مائل کیاجائے، اپنے آپ کو ،اپنے ہنر کو ،اپنے اندر کے انسان کو پہچاننے کی ضرورت ہے-
مغربی ممالک سے ایک قابل زکر سبق لینے کی ضرورت ہے کہ ان کے نوجوان 18 برس کے بعد خود انحصار ہو جاتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے والدین کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اسی طرح ہمارے ملک میں بھی نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر ہنر سیکھنے کی ضرورت ہے-
پانی جو کہ ایک ضرورت ہے ہر خاص و عام کی ،ایک نا قابل فراموش مسئلہ ہے، پاکستان سمندر کا مالک تو ہے مگر اس سمندر کی روانی بھی سوکھتے ہوئے پاکستان کی پیاس کو بجھانے کی قاصر نہیں۔ پاکستان تیزی سے ان ممالک میں شامل ہوتا جارہا ہے جو چند برسوں میں پانی کی قلت کا سامنا کر سکتے ہیں۔خشک ہوتے سندھ کو ہی دیکھ لیں کہ آج کے جدید دور میں بھی تھر کی عورتیں کوسوں دور کی مصافحت طے کر کے چند گھڑے پانی کے بھرنے جاتی ہیں کہ ان کے علاقے میں پانی نہیں،کراچی کا حال بھی قابل زکر ہے کہ پانی بھی وہاں پیسوں سے ملتا ہے۔10فیصد امیروں کو تو مہنگا پانی خریدنے میں کوئی عاقبت نظر نہیں آئے گی مگر ملک کا 90 فیصد غریب طبقہ کدھر جائے گا؟ آفتیں غریب کے لیے تباہی اور امیر کے لیے تجارت ہوتی ہیں-
کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرنے سے پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے جاے ،گلیشییرز سے نکلنے والی پانی کو ضائع ہونے کی بجائے بروے کار لایا جائے ۔ہمیں ان قوموں جیسا بننے کی ہرگز ضرورت نہیں جو اپنی قبریں خود کھودتی ہیںمناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث ملک کا بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے ملک کے نوجوان 2047 کے پاکستان میں مکمل طور پر اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں- مصنوعی جھیلوں کا قیام بھی اس سلسلے میں کار آمد ہے۔ استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کر کے قابل استعمال بنانے کے لیے بھی انتظامات کی ضرورت ہے- آنے والی نسل کے لیے زیادہ سے زیادہ ہنر مندانہ اور تعلیم یافتہ پروگرام کی فراہمی کو ممکن بنانا ہوگا جس کے لیے وہ ماحولیاتی آلودگی ،پانی کے مسائل کے حل،قدرتی آفات کے خاتمے اور ان کی روک تھام کے لیے اقدام کریں اور پاکستان کو صاف پاکستان کی عملی تصویر بنا سکیں ۔
پانی زندگی ہے،اس کی قدر کیجئے۔
اس سے پہلے کہ پاکستان سرخ سرحد کو عبور کر دے اور خشک سالی کا شکار ہوجا ے ،اس مسئلے کو قابل زکر بنانے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے نازل ہونے والے مسائل کے لیے بھی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔صوبائی تعصب ایک ایسا مسئلہ ہے جو قیام پاکستان سے ہمارا دامن تھامے ہوئے ہے، صوبوں کے آپس میں تنازعات ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہے، انہیں کمزوریوں کی وجہ سے پہلے بیت سے تنازعات نے جنم لیا،جس میں جنوبی و شمالی وزیرستان کو ان کے شہری حقوق نہ ملنے ،کا امر بھی ہے جو کہ قابل بحث ہے اور اب جنوبی پنجاب و ہزارہ کا قیام بھی ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔۔بلوچستان کو مسائل سے پاک دیکھنا نوجوان قوم کا بڑا خواب ہے-
ہر خاص و عام کو آزادی رائے حاصل ہو مگر خیال رہے کہ تمیز کا دامن ہاتھ سے نہ جائے۔ اپنے حق کے لیے بولنے والوں کو سنا جائے اور انہیں اس بنا پر نہ پرکھا اور اٹھایا جائے صوبوں کے آپس میں تنازعات کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ آج کل یہ رسم بھی چلی ہے جو یونیورسٹی کی فضاؤں کو گرم رکھتی ہے کہ تعلیمی اداروں خاص کر یونیورسٹیوں میں ہر صوبے سے لوگ پڑھنے آتے ہیں مگر وہ اپنی تعلیم کی بجائے کونسلوں میں جکڑ جاتے ہیں ،وہ خود کو پاکستانی شہری جاننے کی بجائے اپنے صوبے کی بنیاد ہو گردانتے ہیں اور یہ بڑے پیمانے پر مسائل کا باعث بنتا ہے-مذہبی،لسانی، اور سیاسی بنیادوں پر بننے والی یونیورسٹیوں میں طلباء جماعت نے بہت زیادہ جھگڑوں کو جنم دیا ہے،ان کو مثبت راہ روی اپنا کر پاکستان کے لیے محنت کرنے کی ضرورت ہے-
پاکستان کو اپنی دفاعی سرحدوں کی بھی نگرانی و حفاظت کی ضرورت ہے ۔پاکستان اپنی جیو اسٹرٹیجک لوکیشن کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ ہے اور اس وجہ سے بھی پاکستان کے حامی بہت کم ہیں اور پے درپے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے خواب دیکھتے ہیں ان کی حلق سے پاکستان کی کامیابیاں نگلی نہیں جا رہی لہذا کسی بھی قسم کی جنگ کے لیے پاکستان کو ہمہ تن گوش رہنا چاہیئے۔چاروں سمت سے پاکستان کی دفاعی سرحدوں کی مضبوطی ضروری ہے اس کے لیے اپنے نیوکلیئر پروگرام پر صرف فخر کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا بلکہ اس میں مزید کاوشیں چاہیے-ملک کو عبدالقدیر جیسے جوہر کی تلاش ہے جو کہ آج کی صدی میں نا پید ہوچکے ہیں ،ان جیسے نڈر ستاروں کی وجہ سے ہی ملک آج سلامت کھڑا ہے،اور ہر ماں کو، ہر تعلیمی ادارے کو عبدالقدیر جیسے ہیرے کو تراشنا چاہیے ۔
صحت کا مسئلہ بھی سامنے ہے کہ پاکستان کے بجٹ میں شعبہ صحت کو ہر سال انتہائی قلیل حصہ ملتا ہے، ہسپتال قریب کی نگاہ سے دیکھنے کے بھی قابل نہیں،اتنے عریض ملک میں بیماریاں تو بہت ہیں مگر ان کی کوئی تحلیل نہیں ، ہزاروں اموات ہوتی ہیں صرف اس وجہ سے کہ کوئی اچھی سطح کا ہسپتال نہیں کہ ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ میں اتر جاتے ہیں ،بہت سے نچلے علاقوں کی حاملہ خواتین نامناسب سہولیات کی بنا پر اپنا حمل گرا دیتی ہیں ،لیڈی ہیلتھ ورکرز کا فروغ بھی بہت ضروری ہے ، دوایاں یا تو ملتی نہیں لیکن اگر بہت سے ہوشیار مافیوں سے بچ کے مارکیٹ میں پہنچ جائے تو وہ مالکان بھی منہ کھولے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ادویات عام آدمی کی پہنچ سے نہایت باہر ہوتی ہیں ، ڈاکڑوں نے لوٹ مار کا الگ بازار گرم کر رکھا ہے کہ وہ رشوت لے دے کر ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے یہ حال ہے ان چھوٹے قصبوں کے ہسپتالوں کا!ہر سال اتنے لوگ بھوک ہڑتال سے نہیں مرتے جتنے دوسری بیماریوں سے مر جاتے ہیں ،ڈاکٹروں کو اچھے پیکج دیے جائیں تاکہ وہ اپنے ملک کے اندر رہ کر ہی ملک و عوام کر خدمت کر سکیں ۔ ڈنمارک اور سویڈن کی مثال لے لیں ،یہ دہ ممالک ورلڈ ہیلتھ انڈیکس میں سب سے اوپر ہیں ،ان کی تنخواہ کا 45 فیصد ان کی حکومت کی طرف ان کی صحت کی سہولیات کے لیے جاتا ہے، اسی طرح بے خک حکومت الگ ٹیکس کے مگر اسے محفوظ ہاتھوں میں دے اور مناسب جگہوں پر لگائے تاکہ عوام اس پریشانی سے خود کو نجات دلا سکیں 2047 کے پاکستان کو نوجوان ،صحت کے مسائل سے پاک پاکستان چاہتے ہیں۔
میڈیا کی آزادی بھی پاکستان کے سنہرے مستقبل کے لیے ضروری ہے،ایک بکا ہوا صحافی ایسے ہے گھر میں پالا ہوا نیولا۔ سچ بک جاتا ہے صاحب ،جھوٹ کی جیت ہوجاتی ہے، سچائی کی مات ہوجاتی ہے ، اور یہی رسم میرے عظیم ملک میں بھی چل پڑی ہے- آزاد صحافت فوری ضرورت ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ان کے جھوٹے پروپیگنڈوں سے بچ سکیں اور 2047 کے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک میں شمار کر سکیں-ایک صحافی اس ذمہ داری کا حامل ہے کہ وہ پاک سر زمین کی سالمیت کو اچھے و سنہری الفاظ میں تحریر کرے۔اس سلسلے میں اداروں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے ،ہر ادارے کو اپنے منشور کے مطابق ملک و ملت کی خدمت کرنی چاہیے، آزاد عدلیہ ،حق اور سچ کا حقیقت اور دلائل کے مطابق فیصلہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔
بجٹ کو نوجوانوں کی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ دیا جائے اور اس بجٹ کو ملک کی خوشحالی ہی راہ میں لگایا جائے ، کیونکہ نوجوان ہی پاکستان کو ایک پائیدار اور ترقی یافتہ ملک بنانے کی سکت رکھتے ہیں ہم 2047 کے پاکستان کو ایک روشن پاکستان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں ،اس کے لیے تمام نوجوانوں کو چاہیے کہ ان بیان کردہ اصولوں کو اپنے پلو سے باندھ لے ، ان کی پاسداری کے لیے کسی قوم کی کوشش سے دریغ نہ کرے،اور اپنی تمام تر طاقتیں و قوتیں اس سلسلے میں سرف کر دے-